کتاب اور انسان کا رشتہ بہت قدیم اور بہت حسین ہے، قدیم اتنا کہ باری تعالی نے انسان کی تخلیق سے قبل ہی اس سے وابستہ جملہ چیزیں تقدیری کتاب میں ثبت کر کے انسان اور کتاب کا باہمی رشتہ جوڑ دیا، حسین اتنا کہ کوئی کتاب کا عاشق ہے تو کوئی فدائی، کوئی مداح ہے تو کوئی ثنا خواں، کتاب سے بہتر کوئی رفیق ہے نہ اس سے بہتر کوئی رہنما، کتاب ایک بہترین ہم سفر اور ہم دم تو ہے ہی ساتھ ہی غم خوار بھی ہے اور غم گسار بھی، عالَمِ کرب میں یہ معاون بھی ہے اور مدد گار بھی، یہ علم پرور بھی ہے، روح پرور بھی، یہ دل نواز بھی ہے اور متاعِ لازوال بھی، کتاب اپنے قاری کے ذہن ودماغ کو تر وتازگی، افکار وخیالات کو بالیدگی، جسم وروح کو پاکیزگی، جہالت زدہ قلوب کو علم وآگہی اور گم کردہ راہِ راست کو منزل کی راستی عطا کرتی ہے
کتاب صرف حروف والفاظ کے مشمولات کا ایک گلدستہ ہی نہیں ؛ بلکہ اپنے آپ میں ایک کائنات ہوتی ہے، جہاں الفاظ کی شکل میں ہر قسم کے لوگوں سے بآسانی گفتگو کرنے اور سیکھنے کا موقع مل جاتا ہے، پھر ایسا لگتا ہے کہ موجودین کی معیت میں، راہِ عدم کے راہی، رفتگاں سے نارفتہ ہوکر دنیا میں دوبارہ ہمارے سامنے آگیے ہیں اور ہم ان سے ہم کلام ہیں، کتاب کے مطالعے سے شعور میں پختگی پیدا ہوتی ہے، اس سے انسان آفاق وانفس کی نشانیوں کو بہتر طور پر بڑی برق رفتاری سے جان بھی لیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر زمانے میں کتاب کی افادیت واہمیت عند العوام والخواص مسلم رہی ہے، جس کی بناء پر ہر زمانے میں الگ الگ ناحیے سے کتابیں مرقوم ہوتی رہی ہیں اور جاحظ، شیخ یونسؒ وغیرہ جیسے پتہ نہیں کتنے بے شمار عاشقینِ کتب اپنی کتابی معشوقہ پر پروانوں کی طرح جاں نثار وجاں سپار ہوتے رہے ہیں
لیکن واسفا ! زمانے کی تلون مزاجی نے آج ہم سے کتاب ومطالعہ کی حلاوت چھین لی، کاغذ کی مہک ختم اور نشہ روٹھ چکی، ترقی کی شکل میں چھپی تنزلی نے ہم سے ہمارا کتابی رشتہ ختم کرکے انحطاط ہمارا مقدر کردیا، وہ قوم جسے “ذالک الکتاب”، “کتابٌ اُحْکِمَتْ” اور “اِقرأ” جیسے جملوں سے کتاب کی افادیت سمجھا کر کتاب کو حرزِ جاں بنانے کے لیے اشارہ کیا گیا تھا، افسوس کہ اسے غفلت وسستی، مادیت پرستی، حبِ جاہ وجہاں نیز دشمنوں کے مذموم عزائم نے کتاب سے منقطع کر دیا ہے؛ لیکن قابلِ صد مبارک باد ہیں وہ خوش نصیب علم نواز حضرات جنہوں نے ایسے افتادہ دور میں بھی علمی وتصنیفی آوازہ بلند کرنے کی ٹھان رکھی ہے، جو تعلیمی، تحقیقی اور تصنیفی خدمات انجام دے کر بزبانِ کلیم عاجز کہتے رہتے ہیں :
کوئی بزم ہو کوئی انجمن یہ شعار اپنا قدیم ہے
جہاں روشنی کی کمی ملی وہیں اک چراغ جلا دیا
انہیں باتوفیق وباکمال اشخاص میں استاذ مکرم جناب مولانا مفتی محمد نوشاد نوری قاسمی صاحب (حفظہ اللہ) ہیں، حضرت ممدوح صالحیت وصلاحیت کے حامل، باغ وبہار طبیعت کے مالک، بہترین ادیب وانشاء پرداز، چھوٹی بڑی، عربی اردو تقریباً درجنوں کتابوں کے مصنف اور ماہر استاذ ہیں، جو گاہے بگاہے اپنی تحریر وتقریر، درسی غیر درسی تصنیف وتالیف کے ذریعے عالَمِ علم وادب کو سامانِ علم وعمل بہم پہنچاتے رہتے ہیں، واضح رہے کہ حضرت ممدوح کی فقہ الدعوۃ، تعلیم النحو، تعلیم الانشاء، العربیة للاطفال، التشبه فی الاسلام، البیعه فی عہد النبوۃ، موقف الامام النانوتوی من القضایا الخلافیة، فی واحة الکتب جیسی اہم کتابیں ماقبل میں منظر عام پر آکر خوب داد وتحسین وصول کرچکی ہیں، حال ہی میں آپ کے گوہر بار علمی اور تحقیقی قلم سے “الدكتور عبد المنعم النمر حياته ومولفاته في تاريخ الهند” نامی ایک جدید کتاب منصۂ شہود پر آئی ہے، جسے حضرات اہل علم ودانش قدر کی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں، یہ کتاب حضرت والا کی عرق ریز منحنتوں اور پُرمشقت لمحوں میں لکھے گیے مقالے کا مجموعہ ہے، یہ کتاب اس معنی کر بھی اہم ہے کہ یہ ایک انتہائی اہم، قابلِ قدر شخصیت جناب “عبد المنعم النمر” صاحب کی سوانح عمری ہے
ڈاکٹر عبد المنعم النمر صاحب باکمال محقق ومؤرخ، کثیر التصانیف، صاحبِ علم وفکر شخصیت ہیں، 1956ء میں آپ “جامعہ ازہر مصر” کی طرف سے مامور ہو کر دارالعلوم دیوبند تشریف لائے اور استاد کی حیثیت سے بچوں کو عربی پڑھائی، آپ تقریباً 27 مہنیے یہاں قیام پذیر رہے، دریں اثنا یہاں کے لوگوں سے بہت گھل مل گئے، خصوصاً خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی صاحب (رحمہ اللہ) اور دیگر اساتذہ کرام کی رفاقت شامل رہی، یہاں رہ کر یہاں کی قابلِ فخر تاریخ کے بارے میں جان کر آپ کو بہت حیرت واستعجاب ہوا، اس سے قبل آپ صرف ہندوستان کی ابتدائی تاریخ یعنی محمد بن قاسمؒ کی فتوحات کے متعلق ہی جانتے تھے ؛ لیکن یہاں آنے کے بعد یہاں کی تاریخ کا بڑی عرق ریزی سے مطالعہ کر کے اپنے علمی سمندر سے کئی اہم کتابیں لکھ کر ہم ہندوستانیوں کو احسان سے گراں بار کردیا، مثلاً آپ نے ایک کتاب “تاریخ الاسلام فی الہند” کے نام سے تالیف کی، جس میں از ابتداء تا 1857ء کے ہندوستانی واقعات کا بہت اچھے سے تذکرہ کیا، اہل علم کی شہادت ہے کہ ہندوستان کی تاریخ پر عربی زبان میں آج بھی اس سے بہتر کوئی کتاب نہیں ہے، بعد ازاں آپ نے ہندوستان سے ہی متعلق “کفاح المسلمین فی تحریر الہند” نامی دوسری کتاب لکھی، جس میں 1857ء سے 1947ء تک کے ملک کی تقسیم وغیرہ کے حالات قلمبند کیے، اس کے علاوہ ہندوستان سے ہی متعلق آپ کی تیسری کتاب مولانا ابو الکلام آزاد صاحبؒ پر مشتمل آپ کی “پی ایچ ڈی” کا مقالہ ہے