-
Bazdeed e Haram, Safarnama e Haj, بازدید حرم، سفرنامہ حج
مجھے حج کے سفرناموں سے خاص دلچسپی رہی ہے،برصغیر کے اکثر مشاہیر ادب کے سفرنامہ حج کو پڑ ھ چکا ہوں۔اس وقت میرے سامنے ایک سفرنامہ حج ,,بازدیدِ حرم ” ہے ، جوپختہ قلم ،اور رواں اسلوب کے مالک مشہور ومعروف صحافی جناب سہیل انجم صاحب کے رشحات قلم سے نکلے شذرات ہیں ، انھوں نے ٢٠١٨ء میں اپنی اہلیہ محترمہ کے ساتھ دوسری بار حج کی سعادت حاصل کی تھی ، ان کا پہلا سفرنامہ ” پھر سوئے حرم لے چل ” ٢٠٠٧ء میں شائع ہوا اور دینی وادبی حلقوں میں خراج تحسین حاصل کرچکا ہے۔
” باز دیدحرم ” کی اہمیت وافادیت کے لئے اتنا کہنا کافی ہے کہ اس کے مصنف سہیل انجم صاحب ہیں جن کی نگارشات سے انقلاب ، اخبارِ نو ، نئی دنیا ، وبلٹز ممبئی وقومی آواز دہلی جگمگاتے رہے ، قارئین اس تحقیقی مزاج ، منفرد انداز اور دلآویز اسلوب کے حامل صحافی کے مضامین کا بے صبری سے انتظار کرتے تھے ، قدرت نے سہیل انجم کو منظر کشی کی زبردست صلاحیت بخشی ہے ، وہ کسی مقام یا ماحول کا جب اپنے فطری اسلوب میں نقشہ کھینچتے ہیں تو قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھی اس ماحول کا حصہ ہے ۔
سہیل انجم ایک دیانتدار صحافی ہیں ، اس لئے جہاں وہ دیار مقدس کے حسن انتظام اور خوبیوں کو وارفتگی وشیفتگی سے بیان کرتے ہیں وہیں خرابیوں اور بد انتظامی کے ذکر سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ وہ سعودی کی معاشی ترقیات اور زائرین حرم کے لئے فراہم کردہ سہولیات کا تذکرہ فراخدلی سے کرتے نظر آتے ہیں تو معلمین ومنتظمین کی بد نظمی پر نکیر بھی کرتے ہیں اور حق بیانی وصاف گوئی جو ایک صحافی کا طرۂ امتیاز ہے وہ اس پر کھرے اترتے ہیں ۔ وہ” تصویر کا ایک رخ” کے ذیلی عنوان کے تحت لکھتے ہیں :
” ہم نے جس لمحے سرزمین حجاز پر قدم رکھا اسی وقت سے ہمیں سعودی حکومت کے وسیع انتظامات کے مشاہدہ کرنے کا موقع ملا ، یہ مشاہدہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا ، اور حج کے انتظامات کے تعلق سے اس کی کارکردگی ہمارے سامنے جلوہ گر ہوتی چلی گئی ۔ لاکھوں کی تعداد میں پولیس اور سیکورٹی جوان ، اسکاؤٹس اور دنیا کے مختلف ممالک سے آنے والے رضاکاروں نے حجاج کے لئے اپنے دیدہ ودل جس طرح فرشِ راہ کردئے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ ” (١٠٦)
اور منیٰ کی بدنظمی کو بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :
” خیمے کے اندر گئے تو وہاں کا منظر دیکھ کر دنگ رہ گئے ، ڈیڑھ ڈیڑھ فٹ چوڑے اسفنج کے گدے یوں ملا ملاکر بچھائے گئے تھے کہ ان کے درمیان سوئی بھی نہیں رکھی جاسکتی ۔ ایک حاجی کے حصے میں ایک گدا تھا ، ہر گدے پر انتہائی گندی چادر رکھی ہوئی تھی جس کے روئیں روئیں جھڑ کر کپڑوں میں چپک رہے تھے ، ایک خیمے میں بمشکل پچاس افراد کی گنجائش تھی لیکن ڈیڑھ دو سو حاجیوں کو ٹھہرایا گیا اور طرفہ تماشہ یہ کہ اسی حالت میں پانچ روز قیام کرنا ، جب سارے گدوں پر حاجی براجمان ہوگئے اور وہ بھی سفید چادروں میں تو ایسا محسوس ہوا کہ ہم انسان نہیں بلکہ بوائلر چکن ہیں جن کو جالیوں میں ٹھونس دیا جاتا ہے۔” ( ص:١١٧)
یہ دو نمونے دو متضاد تصویریں پیش کررہے ہیں ، نقد وتعریف کے ساتھ مقامات مقدسہ کی تاریخ ، وہاں کی دینی حیثیت، جغرافیائی حالت اور معاشی خوشحالی کو بڑے دلکش انداز میں بیان کیا ہے ، ایک عنوان حجاز اور اہل حجاز ( تب اور اب ) ہے جس میں ایک صدی قبل کے سفرناموں کی روشنی میں اس وقت کے سعودی عرب اور حرمین کی حالت اور آج کے ترقی یافتہ دور کی صورتحال کو بیان کیا ہے جو خاصا دلچسپ اور سبق آموز ہے۔
سہیل انجم نے صرف حج کی روداد ہی نہیں بیان کی ہے بلکہ سفر حج کے منکرات پر زبردست نکیر کی ہے ، مجھے کتاب کا یہ عنوان بہت پسند آیا ” حرمین کا تقدس اور سیلفی کا جنون ”واقعی سوشل میڈیا!جیسے فیس بک ، وہاٹس اپ اور ٹوئٹر وغیرہ کی لت منشیات کی لت سے بھی زیادہ مضر ہوتی ہے، اٹھتے ، بیٹھتے سوتے جاگتے دھیان اسی کی طرف ہوتا ہے، آنکھ کھلتے ہی پہلاکام یہ ہوتا ہے موبائل اٹھا کر دیکھتے ہیں کہ کوئی میسیج تو نہیں ہے۔ حج جیسا سفر جو خالص اللہ کیلئے ہوتا ہے ، جہاں انسان ہر طرف سے یکسو ہوکر دوردراز کاسفر طے کرکے پہونچتا ہے، وہاں بھی یہ چیز اس پر چھائی رہتی ہے، دراصل ریاونمود کے جذبہ فراواں نے انسان کو اس حد تک پہونچادیا ہے کہ جب تک وہ نیک اعمال کی تشہیر نہ کرلے ، دوسروں کو نہ بتالے تب تک اس جذبے کی تسکین نہیں ہوتی ، چنانچہ حرمین شریفین میں بھی لوگ اس کثرت سے موبائل سے تصویریں لیتے ہیں اور ویڈیو بناتے ہیں جیسے اسی کام کے لئے آئے ہوں ، میرا تو دل کانپ جاتاہے جب دیکھتا ہوں کہ لوگ عین بیت اللہ کے سامنے حطیم کی دیوار سے ٹیک لگاکر ویڈیو بنارہے ہیں، اور اسے شیئر کررہے ہیں ، بیت اللہ کے سامنے تصویر کھنچواکر اسے اپنی پروفائل کی جگہ لگارہے ہیں ، عین مواجہ شریف کے پاس لوگ نہایت انہماک کے ساتھ ویڈیوگرافی میں مشغول نظرآتے ہیں ،یعنی اس ذات شریف (رسول اللہ ﷺ)کے روضہ کے عین سامنے،جس کی نہایت واضح تعلیمات اس کی حرمت کے متعلق بکثرت حدیث پاک کی کتابوں میں موجود ہیں۔اور یہ رواج دن بدن بڑھتا جارہا ہے،افسوس کہ اس معاملے میں عوام کے شانہ بشانہ پڑھا لکھا دیندار طبقہ بھی ہے۔
یہ سہیل صاحب کی دینی حمیت ہے کہ انھوں نے اس موضوع کو اہمیت کودے کرزوردار انداز میں اس پر گفتگو کی ۔ تمام عازمین حج وعمرہ کواسے ضرور ایک بار پڑھنا چاہئے اور اس تحریر کے آئینے میں اپنی شکل دیکھنی چاہئے۔
آپ کو اس سفرنامہ میں حرمین میوزیم ، کسوہ فیکٹری اورمکہ کلاک ٹاور کے بارے میں دلچسپ اور اہم معلومات ملیں گی ۔ ایک مضمون میں حج وعمرہ سے ہونے والی آمدنی سے سعودی معیشت پر کیا فوائد واثرات مرتب ہوتے ہیں اس کا بھی جائزہ لیا گیا ہے ۔ کتاب کا آخری عنوان ” حج وعمرہ : وِژن ٢٠٣٠ء ” ہے جس میں سعودی حکومت کے آئندہ منصوبوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔ پوری کتاب نہایت دلچسپ اور مفید ہے ، بطور خاص حج وعمرہ پر جانے والے حضرات اسے جانے سے پہلے ضرور ایک بار پڑھیں۔تعارف نگار: ضیاء الحق خیرآبادی
-
Deeni Rasail Ki Sahafati Khidmat, دینی رسائل کی صحافتی خدمات
زیر نظر کتاب’’دینی رسائل کی صحافتی خدمات: مدارس اور مسلم تنظیموں سے شائع ہونے والے اردو کے مذہبی رسائل و جرائد کا تحقیقی مطالعہ‘‘کئی لحاظ سے اہم ہے۔ میرے مطالعہ کے مطابق مدارس اور مسلم تنظیموں سے شائع ہونے والے رسالوں کا جائزہ اس پیمانے پر اب تک نہیں لیا گیا تھا۔یہ رسائل و جرائد اور ان کا مطالعہ اس لیے اہم ہے کیونکہ اس سے مدارس کی پیش رفت اور ان کی ترجیحات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔سہیل انجم نے اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ ہندوستانی مدارس کی کم از کم دو ایسے اسباب ہیں جنہیں کسی طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اول یہ مدارس مذہب کے قلعے ہیں ، دوئم یہ مدارس اردو زبان و ادب کے مراکز بھی ہیں۔ مذکورہ کتاب کو مصنف سہیل انجم نے چھ حصوں میں تقسیم کیا ہے، اس کے علاوہ عرض مصنف، پیش لفظ اور ڈاکٹرمحمد منظور عالم کا تحریر کردہ مقدمہ بھی اس کتاب میں شامل ہیں۔
کتاب کا پہلا حصہ ۱۹ ذیلی عنوانات پر مشتمل ہے، جس میں مذہبی صحافت کا پس منظر، اس کے آغازکے علاوہ دوسرے مذاہب بالخصوص عیسائی، ہندو، قادیانی اور سکھ مذاہب و نظریات کے اخبارات و رسائل پر گفتگو کی گئی ہے۔سہیل انجم کا خیال ہے کہ ہندوستان میں مذہبی رسائل کی اشاعت کا سلسلہ عیسائیوں نے شروع کیا تھا، ظاہر ہے اس میں ان کا مفاد بھی شامل تھا، وہ شاید ان رسائل سے ہندوستانی عوام کو مذہبی طور پر بھی اپنا غلام بنانا چاہتے ہوں۔ممکن ہے اس میں ان کو کامیابی بھی حاصل ہوئی ہو،مگر جلد ہی ہندوستان کے مذہبی رہنماوں نے ان کی اس سازش کو بے نقاب کردیا اور اپنے اپنے مذہبی رسائل و جرائدکی اشاعت پر توجہ صرف کی۔سہیل انجم نے لکھا ہے کہ ابتدائی دنوں میں جو مذہبی رسائل شائع ہوئے ان میں اپنے اپنے مذاہب کے متعلق تحریریں تو شامل ہوتی ہی تھیں ، عیسائی مشنری کے خلاف بھی ان میں مواد ہوتا تھا۔ ان کا خیال ہے کہ ہندوستان کا پہلا مذہبی رسالہ مولوی باقر نے ’’مظہر حق‘‘ کے عنوان سے ۱۸۴۳ میں جاری کیا۔یہ بنیادی طور پر شیعہ مذہب کی حمایت میں جاری کیا گیا تھا۔سہیل انجم نے عیسائی، اسلام اور ہندو مذاہب کے اہم رسائل و جرائد کی ایک فہرست بھی دی ہے۔
کتاب کے دوسرے باب میں سہیل انجم نے دینی صحافت کا تاریخی تناظر کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ دیوبندی اہل حدیث، بریلوی اور شیعہ مسالک اور مکتب فکر کے چند اہم رسالوں کا تعارف پیش کیا ہے۔کتاب کا تیسرا باب نہایت اہم ہے۔ اس باب میں جن رسالوں پر سہیل انجم نے تبصرہ کیا ہے ان کا تعلق مذہب سے تو ہے ہی اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں بھی ان رسالوں کا ایک اہم رول رہا ہے۔ اس باب میں الہلال و البلاغ،ترجمان القران، برہان،منادی اور تجلی جیسے رسائل شامل ہیں۔کتاب کا چوتھا باب’’ ہم عصر دینی رسائل و جرائد‘‘ ہے۔جیسا کہ باب کے عنوان سے ہی ظاہر ہے مصنف نے اس باب میں موجودہ عہد کے رسالوں اور ان کے مزاج کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ان میں شائع ہونے والے بعض اہم مضامین پر تبصرہ بھی کیا ہے۔اس باب میں جن رسالوں پر گفتگو ملتی ہے ان میں’ باب الفتاویٰ، دارالعلوم،تحقیقات اسلامی،نوائے اسلام، محدث، اشرفیہ،اور جام نور جیسے اہم رسائل شامل ہیں۔
بہرحال ’’دینی رسائل کی صحافتی خدمات‘‘ اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے۔ حالانکہ کوئی بھی کام مکمل نہیں ہوتا اور تب جب وہ ارتقائی صورت میں ہو۔اس لحاظ سے یہ کتاب مکمل تو نہیں اور نہ ہی مصنف نے اس کا دعویٰ کیا ہے۔مگر یہ اپنی نوعیت کی واحد کتاب ہے، مصنف نے بھی اس جانب اشارہ کیا ہے کہ مذہبی رسائل کا تجزیہ اس پیمانے پر پورے بر صغیر میں نہیں ہوا ہے۔سہیل انجم نے جس تندہی کے ساتھ اس کام کو انجام دیا ہے وہ ایک مثال ہے۔ان رسالوں کا مطالعہ ہمیں ایک طرف مذہبی صحافت کی تاریخ مرتب کرنے میں مدد کرتا ہے تو دوسری طرف مختلف مکتب فکر اور ان کے مسائل کو سمجھنے میں بھی یہ رسالے مددگار ثابت ہوسکتے ہیں ۔میں سہیل انجم کو اس وقیع کام کے لیے مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اس کتاب سے مذہبی صحافت کے نئے باب وا ہوں گے اور اہل علم اس جانب توجہ کریں گے۔
-
-12%
Maqalat Ibn e Ahmad Naqvi, مقالات ابن احمد نقوی
Free Delivery
-
-
-
-
-16%
Urdu Sahafat Aur Ulama, اردو صحافت اور علماء
Original price was: ₹475.00.₹400.00Current price is: ₹400.00.